حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی گڑھ؛ گُزشتہ شب حجت الاسلام والمسلمین الحاج سید شباب حیدر کے پدر بزرگوار سید انوار حسین ابن سید مقبول حسین مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک مجلسِ ترحیم امامیہ ہال، نیشنل کالونی امیر نشاں میں منعقد ہوئی، مجلس کا آغاز معروف سوز خواں سید دانش زیدی صاحب کی مرثیہ خوانی سے ہوا۔
مجلس سے خطاب شعبۂ شیعہ دینیات، اے ایم یو کے پروفیسر (ڈاکٹر) اصغر اعجاز قائمی نے کیا۔
مولانا نے سورہ اسراء کی آیت مبارکہ نمبر 23 کو مطلع سخن قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر قائمی نے قرآن مجید کی عظمت، فضیلت اور کمالات بیان کیے۔
انہوں نے لفظ 'بلا' اور 'فتنہ' کے معنی و مطالب کو اردو اور عربی میں لغوی و اصطلاح میں کہاں اور کیسے استعمال کیا جاتا ہے وسعت سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس آیت میں ارشاد باری تعالٰی ہو رہا ہے "اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا، انھیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم و عزت سے بات کرنا۔" اللّٰہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کا حکم دیا اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، جبکہ ظاہری سبب اس کے والدین ہیں۔ اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی عبادت کرنے کا حکم دیا پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی عزت، احترام و تعظیم کا حکم دیا۔
مذکورہ بالا آیت کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر قائمی نے کہا کہ رب کریم نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو! جس طرح والدین نے تم پر احسان کیا۔ والدین عظیم و اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔ اگر والد محترم کے ساتھ چلتے ہو تو ایسا چلو کہ ظاہر ہو کہ کسی بڑے عظمت والے کے ساتھ چھوٹا چل رہا ہے۔ گفتگو کرو تو معلوم ہو کہ کسی اہم شخصیت سے کوئی چھوٹا محو گفتگو ہے۔ اگر بچے کسی مقام پر اپنے والدین کے ساتھ بیٹھے ہیں تو اس انداز سے بیٹھیں کہ کوئی بچہ اپنے والدین کے ساتھ بیٹھا ہے، تعظیم نمایاں رہے۔ بندوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ بچوں کے لیے ضروری ہے کہ والدین کو نعمت عظمیٰ قرار دیں اور ان کی خدمت اپنے لیے اعزاز قرار دیں۔
ڈاکٹر قائمی نے سید انوار حسین مرحوم کو نہایت شریف، خوش اخلاق، زاہد، صابر و شاکر قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مجلس میں آخری لمحہ تک موجود رہتے تھے، ضعیفی اور ضعف کے عالم میں بھی مجلس، نماز و مستحبات کو ترک نہیں کیا۔ یہ قابلِ ذکر و ستائش ہے کہ مرحوم انوار صاحب نے اپنے دو فرزندوں، سید شباب حیدر اور سید محمد عالم کو عالم بنایا جو خاندان، قبیلہ، قوم و ملت کے لیے ثواب جاریہ ہیں۔ مولانا سید شباب حیدر صاحب قبلہ نے ملک شام میں 17 سال شیر خدا کی شیر دل شہزادی حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے روضہء اقدس پر شب و روز عبادات میں گزارا ہے۔
ایام فاطمیہ رواں دواں ہے اس سلسلے میں مولانا قائمی نے حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت و عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اکرم جب کبھی سفر پر روانہ ہوتے تو سب سے آخر میں اپنی شہزادی سے ملتے اور سفر سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے ملتے اور بوسہ لیتے۔ تعظیم میں کھڑے ہو جاتے، اپنی جگہ بٹھاتے تھے، اُنھیں اپنا جز قرار دیا، لیکن آہ آپ کی وصال کے بعد لوگوں نے حضرت سیدہ فاطمہ کے در پر لکڑیاں جمع کیں، در گرایا، پسلی کی ہڈیاں توڑیں، حضرت محسن شہید ہوئے اور سیدہ شہید کردی گئیں۔ رسالت کے جز کو شہید کردیا! اتنا ظلم کیا کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا گریہ کرتی تھیں۔